خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
اک نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
اس نے کیا کیا ستم نہ توڑے ہیں
دل مرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
ٹوٹتا جا رہا ہے اک اک خواب
سلسلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
رشتے ناطے تمام ٹوٹ گئے
سر پھرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
پو پھٹی انگ انگ ٹوٹتا ہے
اور نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
لہریں آ آ کے ٹوٹ جاتی ہیں
اک گھڑا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
دل کے دریا میں کیسا سنگ گرا
دائرہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
ناؤ ٹوٹی دو نیم ہے پتوار
حوصلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
دھاگا کچا سہی مگر ارشدؔ
یوں بندھا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
غزل
خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
ارشد جمال حشمی