EN हिंदी
خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں | شیح شیری
KHwab kya hai ki TuTta hi nahin

غزل

خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

ارشد جمال حشمی

;

خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
اک نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

اس نے کیا کیا ستم نہ توڑے ہیں
دل مرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

ٹوٹتا جا رہا ہے اک اک خواب
سلسلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

رشتے ناطے تمام ٹوٹ گئے
سر پھرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

پو پھٹی انگ انگ ٹوٹتا ہے
اور نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

لہریں آ آ کے ٹوٹ جاتی ہیں
اک گھڑا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

دل کے دریا میں کیسا سنگ گرا
دائرہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

ناؤ ٹوٹی دو نیم ہے پتوار
حوصلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

دھاگا کچا سہی مگر ارشدؔ
یوں بندھا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں