EN हिंदी
خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں | شیح شیری
KHwab kahan se TuTa hai tabir se puchhte hain

غزل

خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں

غلام محمد قاصر

;

خواب کہاں سے ٹوٹا ہے تعبیر سے پوچھتے ہیں
قیدی سب کچھ بھول گیا زنجیر سے پوچھتے ہیں

جام جم لایا ہے گھر گھر دنیا کے حالات
دل کی باتیں ہم تیری تصویر سے پوچھتے ہیں

دنیا کب کروٹ بدلے گی کب جاگیں گے شہر
کیسی باتیں سوئے ہوئے ضمیر سے پوچھتے ہیں

ہم سے نہ پوچھو کس جذبے نے تمہیں کیا ناکام
بادشاہ ایسی باتیں اپنے وزیر سے پوچھتے ہیں

عہد سے کون مکر جائے گا تاروں کو کیا علم
لکھی نہیں جو تو نے اس تحریر سے پوچھتے ہیں

قاصرؔ نے تو دیکھا ہے اب تک فاقوں کا رقص
جوہری طاقت کیا ہے جوہر میرؔ سے پوچھتے ہیں