EN हिंदी
خواب جو اچھے برے تھے | شیح شیری
KHwab jo achchhe bure the

غزل

خواب جو اچھے برے تھے

پوجا بھاٹیا

;

خواب جو اچھے برے تھے
میرے اندر پل رہے تھے

ایک چپی تم نے چاہی
میں نے اپنے لب سیے تھے

آزمائش وقت نے کی
سب یقیں ٹوٹے پڑے تھے

عمر بھر چل کر نہ پہنچے
جانے کیسے مرحلے تھے

نیند آنکھوں سے جدا تھی
خواب میں بھی رت جگے تھے

دن مہینے سال گزرے
یوں تو ہم کل ہی ملے تھے

لفظ تھے باہیں پسارے
اور غزل کو کچھ گلے تھے

تھی پرانی فلم دنیا
چہرے سب دیکھے سنے تھے

فاصلوں کا ڈر کسے تھا
پاؤں پر رستے لکھے تھے

اس نے برتا تھا تکلف
میرے بھی کچھ مسئلے تھے

چاند تاروں کی جگہ پر
ابر پر جگنوں ٹنگے تھے