خواب جیسی ہی کوئی اپنی کہانی ہوتی
یوں تو برباد نہ یہ اپنی جوانی ہوتی
تیرے آنے سے چہک اٹھتا یہ ویرانۂ دل
پھر سے آباد وہی روش پرانی ہوتی
رابطہ رکھا نہ دیا جائے سکونت کا پتہ
اس طرح بھی ہے کوئی نقل مکانی ہوتی
اب مرے پاس نہیں کوئی بھی رونے کا جواز
ہجر موسم کی سہی اشک فشانی ہوتی
یاد کرنے کا تجھے کوئی بہانہ بھی نہیں
کوئی چھلا کوئی چوڑی ہی نشانی ہوتی
اب ترے ہجر سے مانوس طبیعت ہے مری
پہلے والی سی نہیں جاں پہ گرانی ہوتی
نخل جاں پہ جو برستا تیرا بادل مریمؔ
کچھ تو کم بدن کی یہ تشنہ دہانی ہوتی
غزل
خواب جیسی ہی کوئی اپنی کہانی ہوتی
مریم ناز