EN हिंदी
خواب ہوں میں تو مری ذات سے پہلے کیا تھا | شیح شیری
KHwab hun main to meri zat se pahle kya tha

غزل

خواب ہوں میں تو مری ذات سے پہلے کیا تھا

مصحف اقبال توصیفی

;

خواب ہوں میں تو مری ذات سے پہلے کیا تھا
ابھی جاگا ہوں تو اس رات سے پہلے کیا تھا

اپنے ہونے کا اب احساس ہوا ہے کچھ کچھ
تجھ سے اس تشنہ ملاقات سے پہلے کیا تھا

میں اگر چپ ہوں یہ بہتا ہوا دریا کیا ہے
لب کشا ہوں تو مری بات سے پہلے کیا تھا

گردش شام و سحر اک نگہ مہر تری
تیرے اس لطف و عنایات سے پہلے کیا تھا

خوشبوئیں کس کی ہیں یہ رنگ بھرے ہیں کس نے
میرے ان خاک کے ذرات سے پہلے کیا تھا

تجھ سے کیا پوچھ رہے تھے یہ مہ و مہر و نجوم
میں نہ تھا میرے سوالات سے پہلے کیا تھا