خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رہی
دن چڑھے تک خامشی منبر پہ چلاتی رہی
ایک لمحہ کی خطا پھیلی تو ساری زندگی
چبھتے ذرے کانچ کے پلکوں سے چنواتی رہی
کب یقیں تھا کوئی آئے گا مگر ظالم ہوا
بند دروازے کو دستک دے کے کھلواتی رہی
لمس حرف و صوت کی لذت سے واقف تھی مگر
پہلوئے آواز میں تخئیل شرماتی رہی
صورتیں ایسی کہ جن کے اک تصور سے ظہیرؔ
جسم کے دریا کی اک ایک موج بل کھاتی رہی
غزل
خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رہی
ظہیر صدیقی