خواب دیکھوں کہ رت جگے دیکھوں
وہی گیسو کھلے کھلے دیکھوں
رنگ آہنگ روشنی خوشبو
گھٹتے بڑھتے سے دائرے دیکھوں
کیوں نہ دیکھوں میں روز و شب اپنے
کیوں پہاڑوں کے سلسلے دیکھوں
میں سمیع و بصیر ہوں ایسا
سنوں آنسو تو قہقہے دیکھوں
حال اک لمحۂ گریزاں ہے
مڑ کے دیکھوں کہ سامنے دیکھوں
تجھ کو چھونے بڑھوں تو اپنے ہاتھ
پتھروں میں دبے ہوئے دیکھوں
میرا چہرہ بھی اب نہیں میرا
اب کن آنکھوں سے میں تجھے دیکھوں
غزل
خواب دیکھوں کہ رت جگے دیکھوں
شبنم رومانی