خواب ڈستے رہے بکھرتے رہے
کرب کے لمحے یوں گزرتے رہے
کھو گئے یار ہم سفر بچھڑے
دل میں دکھ ہجر کے اترتے رہے
ہے یہی ایک زیست کا درماں
اشک آنکھوں کے دل میں گرتے رہے
چھا گئیں ظلمتیں زمانے میں
لاشے ہر سمت ہی بکھرتے رہے
لاکھ ہم تجھ کو بھولنا چاہیں
نقش مٹ مٹ کے پھر ابھرتے رہے
درد کی چوٹ دل پہ پڑتی رہی
ہر گھڑی زخم دل نکھرتے رہے

غزل
خواب ڈستے رہے بکھرتے رہے
طاہرہ جبین تارا