خواب اپنے مری آنکھوں کے حوالے کر کے
تو کہاں ہے مجھے نیندوں کے حوالے کر کے
میرا آنگن تو بجز تیرے مہکتا ہی نہیں!
بارہا دیکھا ہے پھولوں کے حوالے کر کے
ایک گمنام جزیرے میں اتر جاؤں گا
اپنی کشتی کبھی لہروں کے حوالے کر کے
کیسا سورج تھا کہ پھر لوٹ کے آیا ہی نہیں
چاند تارے مری راتوں کے حوالے کر کے
مجھ کو معلوم تھا اک روز چلا جائے گا!
وہ مری عمر کو یادوں کے حوالے کر کے
گھر کی ویرانی بدل ڈالی ہے رونق میں حسنؔ
صحن کا پیڑ پرندوں کے حوالے کر کے
غزل
خواب اپنے مری آنکھوں کے حوالے کر کے
حسن عباسی