خواب آنکھوں میں نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
عشق مایوس ہوا ہو مگر ایسا بھی نہیں
ان کی الفت میں اٹھائے ہیں ہزاروں الزام
آج تک آنکھ اٹھا کر جنہیں دیکھا بھی نہیں
راہ ہستی میں نگاہیں تو بھٹک سکتی ہیں
دل بھٹک جائے مگر اتنا اندھیرا بھی نہیں
بڑھ کے آئے تھے کئی غم پئے تسکیں لیکن
غم دوراں کے مقابل کوئی ٹھہرا بھی نہیں
شرم اے بادہ گساروں کہ بھری محفل میں
بڑھ کے خود جام اٹھا لے کوئی ایسا بھی نہیں
کیا تماشا ہے کہ آئے ہیں تسلی دینے
وہ جنہیں درد شناسی کا سلیقہ بھی نہیں
ہر نظر سطح تبسم پہ ٹھہر جاتی ہے
کیا زمانے میں کوئی غم کا شناسا بھی نہیں
لاکھ نازک سہی امید کا رشتہ لیکن
دل کو احساس کی توہین گوارا بھی نہیں
زندگی کو نئے خوابوں سے سجا کر لاؤ
یہ تبسم تو مرے غم کا مداوا بھی نہیں
حادثے ہو چکے ارشدؔ غم الفت کے تمام
اب تو شاید دل مایوس تڑپتا بھی نہیں
غزل
خواب آنکھوں میں نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
ارشد صدیقی