خون اوڑھے ہوئے ہر گھر کا سراپا نکلا
آپ کے شہر کا انداز نرالا نکلا
چھو کے اک شخص کو پرکھا تو ملمع نکلا
اس کو میں کیسا سمجھتا تھا وہ کیسا نکلا
روح ویران ملی رنگ پریدہ نکلا
اس کو نزدیک سے دیکھا تو زمانہ نکلا
سچ کے صحرا میں انہیں ڈھونڈ کے تھک ہار گئے
جھوٹ کے شہر میں یاروں کا بسیرا نکلا
خوش ہو اے دھوپ کے نیزوں سے جھلسنے والو
چاند کے دوش پہ سورج کا جنازہ نکلا
جس سے کترا کے نکلتے رہے برسوں سر راہ
اس سے کل ہاتھ ملایا تو وہ اپنا نکلا
کہیں صحرا میں بھی ڈس لے نہ ہمیں سیرابی
ریت کے بطن سے پھنکارتا دریا نکلا
نرم رو تھا تو سبھی راہ سے منہ موڑ گئے
سنگ اٹھایا تو مرے ساتھ زمانہ نکلا
وادیاں لفظ و معانی کی تہہ آب ہوئیں
کن پہاڑوں سے خیالات کا جھرنا نکلا
غزل
خون اوڑھے ہوئے ہر گھر کا سراپا نکلا
مظہر امام