EN हिंदी
خون کی ہر بوند پتھر ہو چکی | شیح شیری
KHun ki har bund patthar ho chuki

غزل

خون کی ہر بوند پتھر ہو چکی

احمد رضی بچھرایونی

;

خون کی ہر بوند پتھر ہو چکی
زندگی خطرے سے باہر ہو چکی

آندھیوں کی زد پہ اے ریگ رواں
بے گھری تیرا مقدر ہو چکی

میں نکل آیا حصار جسم سے
سرد جب شعلوں کی چادر ہو چکی

احتیاطوں سے بھی کچھ حاصل نہیں
اب تو یہ مٹی بھی بنجر ہو چکی

سایۂ عکس نوا بھی مٹ گیا
دھوپ بھی مٹھی برابر ہو چکی