خون کی ہر بوند پتھر ہو چکی
زندگی خطرے سے باہر ہو چکی
آندھیوں کی زد پہ اے ریگ رواں
بے گھری تیرا مقدر ہو چکی
میں نکل آیا حصار جسم سے
سرد جب شعلوں کی چادر ہو چکی
احتیاطوں سے بھی کچھ حاصل نہیں
اب تو یہ مٹی بھی بنجر ہو چکی
سایۂ عکس نوا بھی مٹ گیا
دھوپ بھی مٹھی برابر ہو چکی
غزل
خون کی ہر بوند پتھر ہو چکی
احمد رضی بچھرایونی