EN हिंदी
خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ | شیح شیری
KHun ke dariya bah jate hain KHair aur KHair ke bich

غزل

خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ

ضیا جالندھری

;

خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ
اپنے آپ میں سب سچے ہیں مسجد و دیر کے بیچ

لاگ ہو یا کہ لگن ہو دونوں ایک دیے کی لویں
ایک ہی روشنی لہراتی ہے پیار اور بیر کے بیچ

دل میں دھوپ کھلے تو اندھیرے چھٹ جاتے ہیں آپ
اب ہم فرق روا نہیں رکھتے یار اور غیر کے بیچ

سوچ سمجھ سب سچ ہے لیکن دل کی بات ہے اور
دور تھی یوں تو آنکھ بھنور کی پہنچا تیر کے بیچ

جاتے ہو پہ قدم اٹھنے سے پہلے دھیان رہے
عمر کا فاصلہ ہو سکتا ہے پیر اور پیر کے بیچ

دیکھتی آنکھ ضیاؔ حیراں ہے دیکھ کے دہر کے رنگ
پل کی پل میں بدل جاتے ہیں منظر سیر کے بیچ