خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے
ہم کو جی کھول کے رونے میں مزا ملتا ہے
ہم سے اس عشق مجازی کی حقیقت پوچھو
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے
شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے
آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے
کند خنجر کی شکایت میں کروں کیوں ناطقؔ
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یوں ہی مزا ملتا ہے
غزل
خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے
ناطقؔ لکھنوی