EN हिंदी
خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے | شیح شیری
KHun-e-dil ka jo kuchh ashkon se pata milta hai

غزل

خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے

ناطقؔ لکھنوی

;

خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے
ہم کو جی کھول کے رونے میں مزا ملتا ہے

ہم سے اس عشق مجازی کی حقیقت پوچھو
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے

شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے

آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے

کند خنجر کی شکایت میں کروں کیوں ناطقؔ
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یوں ہی مزا ملتا ہے