EN हिंदी
خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا | شیح شیری
KHun aankhon se nikalta hi raha

غزل

خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا

اشرف علی فغاں

;

خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا
کاروان اشک چلتا ہی رہا

اس کف پا پر ترے رنگ حنا
جن نے دیکھا ہاتھ ملتا ہی رہا

صبح ہوتے بجھ گئے سارے چراغ
داغ دل تا شام جلتا ہی رہا

کب ہوا بیکار پتلا خاک کا
یہ تو سو قالب میں ڈھلتا ہی رہا

بہ ہوئے کب داغ میرے جسم کے
یہ شجر ہر وقت پھلتا ہی رہا

کب تھما آنکھوں سے میری خون دل
جوش کھا کھا کر ابلتا ہی رہا

کیا ہوا مرہم لگانے سے فغاںؔ
زخم دل سینہ میں سلتا ہی رہا