خوبان فسوں گر سے ہم الجھا نہیں کرتے
جادو گروں کی زلف میں لٹکا نہیں کرتے
ڈرتے ہیں کہ نالوں سے قیامت نہ مچا دوں
اس خوف سے وہ وعدۂ فردا نہیں کرتے
برباد ہیں لیکن نہیں یاروں سے مکدر
گو خاک ہیں پر دل کبھی میلا نہیں کرتے
اقرار شفا کرتے ہیں پر رکھتے ہیں بیمار
اچھا جو وہ کہتے ہیں کچھ اچھا نہیں کرتے
سورج ہیں کبھی چاند کبھی شمع کبھی پھول
کس روز نئے روپ وہ بدلا نہیں کرتے
دل سے ہوں منیرؔ اپنے میں استاد کا عاشق
توقیر و رعایت مری کیا کیا نہیں کرتے
غزل
خوبان فسوں گر سے ہم الجھا نہیں کرتے
منیرؔ شکوہ آبادی