خوب تم تحفۂ عاشقی دے گئے
آنکھوں میں عمر بھر کی نمی دے گئے
دھوپ میں دے کے سایہ یہ بوڑھے شجر
کتنے پیڑوں کو شاخیں ہری دے گئے
حادثے زندگی میں کچھ ایسے ہوئے
دشمنوں سے جو وابستگی دے گئے
ان کے جلووں کی ہے بات ہی کچھ الگ
عشق کو میرے شائستگی دے گئے
آنکھ ادب زلف تہذیب عارض سخن
اور ترے لب مجھے شاعری دے گئے
غزل
خوب تم تحفۂ عاشقی دے گئے
مظہر عباس