خوب تھی وہ گھڑی کہ جب دونوں تھے اک حصار میں
میں تھا ترے خمار میں تو تھا مرے خمار میں
نور سے مرے عشق کے نکھرے تھے اس کے خد و خال
رنگ تھا مرے خواب کا عکس جمال یار میں
گو تھی کشش ہمارے بیچ بارے بہم نہ ہو سکے
میں تھا الگ مدار میں وہ تھا الگ مدار میں
خواہش وصل یار تو پوری نہ ہو سکی مگر
دشت حیات کٹ گیا وحشت انتظار میں
مرضی سے کب ہوا کوئی عشق بتاں میں مبتلا
کون یہ روگ پالتا ہوتا جو اختیار میں
نغمے خوشی کے کس طرح گائے وہ بلبل نزار
جس کا چمن اجڑ گیا یارو بھری بہار میں
غزل
خوب تھی وہ گھڑی کہ جب دونوں تھے اک حصار میں
کاشف رفیق