خوب ہونی ہے اب اس شہر میں رسوائی مری
بیچ بازار ابھر آئی ہے تنہائی مری
ایک بار اس نے بلایا تھا تو مصروف تھا میں
جیتے جی پھر کبھی باری ہی نہیں آئی مری
اپنی تعمیر کے ملبے سے پٹا جاتا ہوں
اور پایاب ہوئی جاتی ہے تنہائی مری
خانۂ وصل عزا خانۂ ہستی کہ جہاں
گونجتی رہتی ہے بس درد کی شہنائی مری
دشت خاموشی میں چلتی ہے بہت تیز ہوا
دور تک اڑتی ہوئی گرد ہے گویائی مری
زندگی سال چھ ماہی تو ملا کر آ کر
غیریت اتنی بھلا کس لیے ماں جائی مری
منجمد ہو گیا سارا متحرک میرا
میرے پانی پہ جمی بیٹھی ہے اب کائی مری
فرحتؔ احساس تغزل سے شرابور ہوا
رات آغوش میں کچھ یوں یہ غزل آئی مری
غزل
خوب ہونی ہے اب اس شہر میں رسوائی مری
فرحت احساس