EN हिंदी
خوب ہے عشوہ یہ اس کا یہ اشارت اس کی | شیح شیری
KHub hai ishwa ye us ka ye ishaarat uski

غزل

خوب ہے عشوہ یہ اس کا یہ اشارت اس کی

محمد احمد رمز

;

خوب ہے عشوہ یہ اس کا یہ اشارت اس کی
میرے ہاتھوں کی لکیریں ہیں عبارت اس کی

وصل کی رات کے اک آخری موتی کی طرح
خواب بنتی ہوئی آنکھوں میں بشارت اس کی

اس کے دامن پہ نہیں پڑتے لہو کے دھبے
تیغ اٹھائے وہ تو پھر دیکھو مہارت اس کی

خام اشیا کی طرح بکھرا پڑا ہے سر راہ
زیر تعمیر تماشا ہے عمارت اس کی

نا شناسی کے خرابے میں سفر ہے اس کا
زندہ رہنے کی تمنا ہے جسارت اس کی

داغ تشکیک کے دھو دیتی ہے پیشانی سے
معجزہ بنتی ہے جب رمزؔ طہارت اس کی