خوب ہے عشوہ یہ اس کا یہ اشارت اس کی
میرے ہاتھوں کی لکیریں ہیں عبارت اس کی
وصل کی رات کے اک آخری موتی کی طرح
خواب بنتی ہوئی آنکھوں میں بشارت اس کی
اس کے دامن پہ نہیں پڑتے لہو کے دھبے
تیغ اٹھائے وہ تو پھر دیکھو مہارت اس کی
خام اشیا کی طرح بکھرا پڑا ہے سر راہ
زیر تعمیر تماشا ہے عمارت اس کی
نا شناسی کے خرابے میں سفر ہے اس کا
زندہ رہنے کی تمنا ہے جسارت اس کی
داغ تشکیک کے دھو دیتی ہے پیشانی سے
معجزہ بنتی ہے جب رمزؔ طہارت اس کی

غزل
خوب ہے عشوہ یہ اس کا یہ اشارت اس کی
محمد احمد رمز