EN हिंदी
خشکی پہ رہوں گی کبھی پانی میں رہوں گی | شیح شیری
KHushki pe rahungi kabhi pani mein rahungi

غزل

خشکی پہ رہوں گی کبھی پانی میں رہوں گی

راشدہ ماہین ملک

;

خشکی پہ رہوں گی کبھی پانی میں رہوں گی
تا عمر اسی نقل مکانی میں رہوں گی

میں جسم نہیں حسن ہوں اے چشم ابد تاب
مر کر بھی محبت کی کہانی میں رہوں گی

تابندہ رہیں گے مری آنکھوں کے کنارے
اشکوں میں ڈھلی ہوں کہ روانی میں رہوں گی

اجداد کی قربت سے اٹھایا گیا مجھ کو
گویا میں بزرگوں کی نشانی میں رہوں گی

شعروں ہی پہ موقوف نہیں میری حقیقت
الفاظ سے بھاگوں گی معانی میں رہوں گی

اے شاعر دل سوز مرے دکھ کو بیاں کر
تا حشر تری شعلہ بیانی میں رہوں گی

اب گڑیا پٹولوں سے علاقہ نہیں ماہینؔ
بچپن سے نکل آئی جوانی میں رہوں گی