خشک پتوں کی طرح شاخوں سے گر جاتے ہیں ہم
وقت کی گرد سفر بن کے اڑے جاتے ہیں ہم
جیسے صدیوں کی سیہ پوشی مقدر بن گئی
روشنی کا نام آتے ہی پگھل جاتے ہیں ہم
اس قدر روشن نہیں تھی آج سے پہلے غزل
بھیگتے لفظوں کو شعلوں کی زباں دیتے ہیں ہم
صبح ہوتی ہے تو جیسے اک حقیقت جان کر
گم شدہ خوابوں کی تعبیروں کو اپناتے ہیں ہم
یہ گھنے لمحات یہ موہوم آوازوں کا شور
ڈھونڈ لے اے شمع تنہائی کہ کھو جاتے ہیں ہم
جس طرح اک طفل خوابیدہ ہو ان آنکھوں کی یاد
چونک کر خوابوں سے اک پل کو سنبھل جاتے ہیں ہم
زندگی کو عہد ماضی کی روایت جان کر
صفحۂ دوراں سے تحریریں مٹا دیتے ہیں ہم

غزل
خشک پتوں کی طرح شاخوں سے گر جاتے ہیں ہم
میر نقی علی خاں ثاقب