خشک ہونٹوں کی انا مائل ساغر کیوں ہے
تو سمندر ہے تو یہ پیاس کا منظر کیوں ہے
یہ فسوں کاریٔ احساس ہے یا عکس حیات
آئنہ خانے کا ہر آئنہ ششدر کیوں ہے
قرب ساحل بھی ٹھہرتی نہیں اب کشتیٔ جاں
اتنا برہم مرے اندر کا سمندر کیوں ہے
شعلہ شعلہ ہے ہر اک شاخ مری پلکوں کی
پھر بھی آنکھوں میں حسیں خواب کا پیکر کیوں ہے
جنبش لب کی بھی جرأت نہیں حاصل ہے اگر
پھر مرے دل میں یہ جذبات کا لشکر کیوں ہے
کیا کوئی لمحۂ جاں سوز ہے آنے والا
لو دیے کی مرے اس رات فزوں تر کیوں ہے
ڈھنگ آیا نہ تجھے بھیس بدلنے کا سعیدؔ
بات جو دل میں ہے تیرے وہی لب پر کیوں ہے
غزل
خشک ہونٹوں کی انا مائل ساغر کیوں ہے
سعید عارفی