خوشیاں نہ چھوڑ اپنے لیے غم طلب نہ کر
اے ہم نشیں یہاں کوئی محرم طلب نہ کر
کن ہجرتوں کے بعد ہوا ہے یہ معتبر
پروردگار مجھ سے مرا غم طلب نہ کر
کچھ اور زخم کھا کہ ملے منزل مراد
لمحوں سے اپنے زخم کا مرہم طلب نہ کر
اے دل کسی سے مل کے بچھڑنے میں فائدہ
مضمر ہے جو وصال میں وہ سم طلب نہ کر
ٹکرا نہ مجھ کو میری انا کے پہاڑ سے
میرے لیے وہ ساعت برہم طلب نہ کر
غزل
خوشیاں نہ چھوڑ اپنے لیے غم طلب نہ کر
سلطان رشک