خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے مریض کا دم نکل رہا ہے
فنا اسی رنگ پر ہے قائم فلک وہی چال چل رہا ہے
شکستہ و منتشر ہے وہ کل جو آج سانچے میں ڈھل رہا ہے
یہ دیکھتے ہو جو کاسۂ سر غرور غفلت سے کل تھا مملو
یہی بدن ناز سے پلا تھا جو آج مٹی میں گل رہا ہے
سمجھ ہو جس کی بلیغ سمجھے نظر ہو جس کی وسیع دیکھے
ابھی یہاں خاک بھی اڑے گی جہاں یہ قلزم ابل رہا ہے
کہاں کا شرقی کہاں کا غربی تمام دکھ سکھ ہے یہ مساوی
یہاں بھی اک بامراد خوش ہے وہاں بھی اک غم سے جل رہا ہے
عروج قومی زوال قومی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے
ہمیشہ رد و بدل کے اندر یہ امر پولٹیکل رہا ہے
مزہ ہے اسپیچ کا ڈنر میں خبر یہ چھپتی ہے پانیر میں
فلک کی گردش کے ساتھ ہی ساتھ کام یاروں کا چل رہا ہے
غزل
خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
اکبر الہ آبادی