خوشی گر ہے تو کیا ماتم نہیں ہے
شگفتہ گل پہ کیا شبنم نہیں ہے
کیا ہے یاد اس نے آج شاید
مزاج زندگی برہم نہیں ہے
کسے اپنا کہیں دنیا میں یا رب
کوئی مونس کوئی ہمدم نہیں ہے
ترے جلووں کی جرأت کیسے ہوگی
مری آنکھوں میں اتنا دم نہیں ہے
نظر ان کی پڑی ہے جب سے مجھ پر
مری قسمت میں کوئی غم نہیں ہے
خوشی کے آنکھ میں بھر آئے آنسو
وگرنہ چشم میری نم نہیں ہے
مجھے لے چل حزیںؔ اس انجمن میں
جہاں محرم ہے نامحرم نہیں ہے

غزل
خوشی گر ہے تو کیا ماتم نہیں ہے
ہنس راج سچدیو حزیںؔ