خوشبو ترے لہجے کی مرے فن میں بسی ہے
اشعار ہیں میرے تری آواز کے سائے
دادی کی کہانی کو ترستے ہیں یہ بچے
آنکھوں میں نہیں دور تلک نیند کے سائے
جب جسم پر یہ جان ہو اک قرض کی صورت
اللہ کسی دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے
پھر تازہ ہواؤں کی پہنچ روح تلک ہو
پھر پیار کے موسم کی گھٹا لوٹ کے آئے
خط لکھوں تمہیں یاد کروں ٹھیک ہے لیکن
کیا ٹھیک مرے دل کو قرار آئے نہ آئے
غزل
خوشبو ترے لہجے کی مرے فن میں بسی ہے
عبید الرحمان