خوشبو سے ہو سکا نہ وہ مانوس آج تک
کانٹوں کے نشتروں میں ہے ملبوس آج تک
کرنوں کی داستان سنائے گا ایک دن
خاموش جھولتا ہے جو فانوس آج تک
بستی میں بٹ رہی تھی ہنسی بھی حساب سے
ششدر کھڑا ہے سوچتا کنجوس آج تک
لفظوں کی نرمیوں سے کھلا چاند اس طرح
کرتی ہوں اس کی روشنی محسوس آج تک
رنگ چمن سے واسطہ اس کو کہاں رہا
رقص جنوں میں گم ہے جو طاؤس آج تک
کجلا گئی ہے روشنی گرچہ چراغ کی
لیکن نہیں ہوں آس سے مایوس آج تک
کس طرح آدمی کا پتہ پائے گی صدفؔ
جنگل میں شر کے ہے گھرا جاسوس آج تک
غزل
خوشبو سے ہو سکا نہ وہ مانوس آج تک
صدف جعفری