خوشبو سا بدن یاد نہ سانسوں کی ہوا یاد
اجڑے ہوئے باغوں کو کہاں باد صبا یاد
آتی ہے پریشانی تو آتا ہے خدا یاد
ورنہ نہیں دنیا میں کوئی تیرے سوا یاد
جو بھولے سے بھولے ہیں مگر تیرے علاوہ
اک بچھڑا ہوا دل ہمیں آتا ہے سدا یاد
میں تو ہوں اب اک عمر سے پچھتاووں کی زد میں
کیا تم کو بھی آتی ہے کبھی اپنی خطا یاد
ممکن ہے بھلا کیسے علاج غم جاناں
جب کوئی دوا یاد نہ ہے کوئی دعا یاد
غزل
خوشبو سا بدن یاد نہ سانسوں کی ہوا یاد
فرحت عباس شاہ