EN हिंदी
خوشبو کی طرح شب کو مچلتا تھا گلبدن | شیح شیری
KHushbu ki tarah shab ko machalta tha gul-badan

غزل

خوشبو کی طرح شب کو مچلتا تھا گلبدن

محمود عشقی

;

خوشبو کی طرح شب کو مچلتا تھا گلبدن
بستر سے چن رہا ہوں میں ٹوٹے ہوئے بٹن

خاک شفا کے نام سے مٹی کو بیچ کر
کیا موج کر رہے ہیں امامان فکر و فن

دیکھوں گا میں بھی چکھ کے ذرا زہر کا مزا
تو اپنے ساتھ ساتھ مرا بھی تو کر جتن

ورنہ پھر ان کو چین سے جینے نہ دیں گے لوگ
شرفا کے واسطے بھی ہے لازم کمینہ پن

اب جنس میں نہیں رہی تخصیص رنگ کی
دونوں طرف ہی سیٹی بجاتے ہیں پیرہن

لب پر لچک رہی ہے لپ اسٹک خلوص کی
میک اپ کے بوجھ سے ہے پریشان حسن زن

لوبان کے دھوئیں میں تصوف کے ذکر پر
پودوں کی طرح ہلتے رہے اہل انجمن

اس شان احتیاط کے قربان جائیے
کوشش یہ کر رہے ہیں کہ میلا نہ ہو کفن