خوشبو گلوں میں تاروں میں تابندگی نہیں
تم بن کسی بھی شے میں کوئی دل کشی نہیں
جب تم نہیں ہو پاس خوشی بھی خوشی نہیں
جلتی ہے شمع شمع میں بھی روشنی نہیں
الفت میں بھی سکون کی دولت ملی نہیں
جیتا تو ہوں ضرور مگر زندگی نہیں
وہ کیا سمجھ سکے گا محبت کی عظمتیں
جس کو کبھی کسی سے محبت ہوئی نہیں
تم مجھ کو بے وفائی کے طعنے ہزار دو
الزام بے وفائی سے تم بھی بری نہیں
جب سے لگی ہے آنکھ مری حسن یار سے
سچ پوچھئے تو آنکھ ابھی تک لگی نہیں
اس طرح راہ عشق میں سجدے ادا کئے
میری جبین شوق جھکی پھر اٹھی نہیں

غزل
خوشبو گلوں میں تاروں میں تابندگی نہیں
موج فتح گڑھی