خوشبوؤں کا شجر نہیں دیکھا
ایک مدت سے گھر نہیں دیکھا
رہ گزر ہم نے ایسی چن لی تھی
میلوں دیوار و در نہیں دیکھا
تم جو بدلے تو کیا غضب بدلے
ہم نے ایسا اثر نہیں دیکھا
اتنی بوجھل ہوئی تھی یہ پلکیں
اس کو دیکھا مگر نہیں دیکھا
چاند کیسے زمیں پہ چلتا ہے
جس نے اس کو اگر نہیں دیکھا
آئنہ ہم سے روز پوچھے ہے
خود کو کیوں بن سنور نہیں دیکھا
خط کو چوما اسی کی خوشبو تھی
خط کے اندر مگر نہیں دیکھا
تم سے بچھڑے تو کیسے زندہ ہیں
تم نے یہ سوچ کر نہیں دیکھا

غزل
خوشبوؤں کا شجر نہیں دیکھا
سنجیو آریہ