خوشا اے زخم کہ صورت نئی نکلتی ہے
بجائے خون کے اب روشنی نکلتی ہے
نگاہ لطف ہو اس دل پہ بھی او شیشہ بدست
اس آئنے سے بھی صورت تری نکلتی ہے
مرے حریف ہیں مصروف حرف سازی میں
یہاں تو صوت یقیں آپ ہی نکلتی ہے
زباں بریدہ شکستہ بدن سہی پھر بھی
کھڑے ہوئے ہیں اور آواز بھی نکلتی ہے
تمام شہر ہے اک میٹھے بول کا سائل
ہماری جیب سے ہاں یہ خوشی نکلتی ہے
اک ایسا وقت بھی سیر چمن میں دیکھا ہے
کلی کے سینے سے جب بے کلی نکلتی ہے
کسی کے راستے کی خاک میں پڑے ہیں ظفرؔ
متاع عمر یہی عاجزی نکلتی ہے

غزل
خوشا اے زخم کہ صورت نئی نکلتی ہے
ظفر عجمی