خوش رنگ کس قدر خس و خاشاک تھے کبھی
ذرے بھی زیب و زینت افلاک تھے کبھی
اب ڈھونڈتے ہیں راہ تخاطب کے سلسلے
کیا ہم وہی ہیں تم سے جو بے باک تھے کبھی
گو دے سکے نہ سوز دروں کا ہمارے ساتھ
یہ دیدہ ہائے خشک بھی نمناک تھے کبھی
کچھ اور بھی عزیز ہوئی ہیں نشانیاں
دامن وہ تار تار ہیں جو چاک تھے کبھی
ہم نے جنوں سے پہلے کیا تھا تمہیں پسند
اچھا تو ہم بھی صاحب ادراک تھے کبھی
اب دھوپ ہے کہ چھاؤں ملے عمر ہو گئی
موسم مزاج دوست کے چالاک تھے کبھی
غزل
خوش رنگ کس قدر خس و خاشاک تھے کبھی
اکبر علی خان عرشی زادہ