EN हिंदी
خوش قسمت ہیں وہ جو گاؤں میں لمبی تان کے سوتے ہیں | شیح شیری
KHush-qismat hain wo jo ganw mein lambi tan ke sote hain

غزل

خوش قسمت ہیں وہ جو گاؤں میں لمبی تان کے سوتے ہیں

افضل پرویز

;

خوش قسمت ہیں وہ جو گاؤں میں لمبی تان کے سوتے ہیں
ہم تو شہر کے شور میں شب بھر اپنی جان کو روتے ہیں

کس کس درد کو اپنائیں اور کس کس زخم کو سہلائیں
دیکھتی آنکھوں قدم قدم پر کئی حوادث ہوتے ہیں

دل کی دلی لٹ گئی اس کے ایوانوں میں غدر مچی
خودداری کے مغل شہزادے شہر میں ٹھلیا ڈھوتے ہیں

خوش لحنوں کے لیے گلشن بھی کنج قفس بن جائے تو
جبر کے گن گاتے ہیں یا نغموں میں درد سموتے ہیں

شام نے دن کا ساتھ چھڑایا رات نے دشت میں آن لیا
ایسے سفر میں رہ گیروں پر سانس بھی دوبھر ہوتے ہیں

میں تو اپنی جان پہ کھیل کے پیار کی بازی جیت گیا
قاتل ہار گئے جو اب تک خون کے چھینٹے دھوتے ہیں

دل کے زیاں کا سبب کیا پوچھو ان طوفانوں کو دیکھو
جن کے بھنور ساحل کے سفینوں کو بھی آن ڈبوتے ہیں

پرویزؔ آج نہیں ملتی ہے خم کے بھاؤ تلچھٹ بھی
اس پر طرہ یہ ہے کہ ساقی نشتر طعن چبھوتے ہیں