خوش نہیں آئے بیاباں مری ویرانی کو
گھر بڑا چاہیئے اس بے سر و سامانی کو
ڈھال دوں چشمۂ پر حرف کو آئینے میں
اپنی آواز میں رکھ دوں تری حیرانی کو
جادۂ نور کو ٹھوکر پہ سجاتا ہوا میں
دیکھتا رہتا ہوں رنگوں کی پر افشانی کو
سر صحرا مری آنکھوں کا تلاطم جاگا
موجۂ ریگ نے سرشار کیا پانی کو
سجدۂ نقش کف پائے نگاراں ہی تو ہے
جس نے تابندہ رکھا ہے مری پیشانی کو
تجھ سے بھی کب ہوئی تدبیر مری وحشت کی
تو بھی مٹھی میں کہاں بھینچ سکا پانی کو
سرد موسم نے ٹھٹھرتے ہوئے سورج سے کہا
چادر ابر تو ہے ڈھانپ لے عریانی کو
شہریارؔ اپنے خرابے پہ حکومت ہے مری
کوئی مجھ سا ہو تو سمجھے مری سلطانی کو
غزل
خوش نہیں آئے بیاباں مری ویرانی کو
احمد شہریار