EN हिंदी
خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے | شیح شیری
KHush bahut phirte hain wo ghar mein tamasha kar ke

غزل

خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے

ظفر اقبال

;

خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے
کام نکلا تو ہے ان کا مجھے رسوا کر کے

روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے

اس طرف کام ہمارا تو نہیں ہے کوئی
آ نکلتے ہیں کسی شام تمہارا کر کے

مٹ گئی ہے کوئی مڑتی ہوئی سی موج ہوا
چھپ گیا ہے کوئی تارا سا اشارا کر کے

فرق اتنا نہ سہی عشق و ہوس میں لیکن
میں تو مر جاؤں ترا رنگ بھی میلا کر کے

صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیت دل
دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گدلا کر کے

شوق سے کیجیے اور دیر نہ فرمائیے گا
کچھ اگر آپ کو مل جائے گا ایسا کر کے

یوں بھی سجتی ہے بدن پر یہ محبت کیا کیا
کبھی پہنوں اسی ملبوس کو الٹا کر کے

مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے