خوش آمدید کہتا گلوں کا جہان تھا
اک دشت بے اماں مگر درمیان تھا
میری برہنہ پشت تھی کوڑوں سے سبز و سرخ
گورے بدن پہ اس کے بھی نیلا نشان تھا
کس خیمۂ ملال میں راتیں بسر ہوئیں
کس غم کدے پہ مہرباں نامہربان تھا
روشن الاؤ ہوتے ہی آیا ترنگ میں
وہ قصہ گو خود اپنے میں اک داستان تھا
اس سمت گریہ زاری و کافور کی مہک
اس سمت خوش لباسی تھی اور عطر دان تھا
غزل
خوش آمدید کہتا گلوں کا جہان تھا
امیر حمزہ ثاقب