خورشید رخوں کا سامنا ہے
شبنم صفت آبرو ہوا ہے
دل زخمیٔ عشق ہے سزا ہے
بھر دوں جو نمک تو پھر مزا ہے
اب تو دل اس پر آ گیا ہے
اچھا ہے برا ہے یا بھلا ہے
بین العد میں آدمی ہے
دنیا ایک بیچ کی سرا ہے
ایسی ہے ملاحت اس کے منہ پر
رخسار کا سبزہ لو نیا ہے
اکسیر ہے دل کی خاکساری
کشتہ ہو جو نفس کیمیا ہے
منعم نہ کر اعتبار دولت
اقبال کا قلب لا بقا ہے
وہ دل نہ رہا جا ناز اٹھاؤں
میں بھی ہوں خفا جو وہ خفا ہے
کم ہے جو ستم ہو تجھ پر اے دل
بے رحم سے اور مل سزا ہے
دل تم کو تو پھر کسی دن
پیار کوئی تم سے بھی سوا ہے
اچھی نہیں یہ خلش رقیبو
کانٹے بو کر کوئی پھلا ہے
ہم دیکھیں مزے رقیب لوٹے
یوں اس سے بھی تو کیا مزا ہے
دم سینے سے کیوں نہیں نکلتا
کیا جسم نزار خار پا ہے
دولت سے کبھی نہ سیر ہوں گے
شاہوں کو فقیر کی دعا ہے
چھپتا نہیں کوئی اپنے دل میں
آنکھوں میں وہی کھٹک رہا ہے
اس رنج میں بھی نباہ دیں گے
اپنا ابھی اتنا حوصلہ ہے
اے بحرؔ غزل کہی جو تم نے
یہ طرز کلام میرؔ کا ہے
غزل
خورشید رخوں کا سامنا ہے
امداد علی بحر