EN हिंदी
خورشید فراق میں تپاں ہے | شیح شیری
KHurshid firaq mein tapan hai

غزل

خورشید فراق میں تپاں ہے

امداد علی بحر

;

خورشید فراق میں تپاں ہے
اے ذرہ نواز تو کہاں ہے

کیوں روتے ہیں دیکھ دیکھ کر ہم
یہ زلف سیہ ہے یا دھواں ہے

منہ دیکھ رہا ہوں اور چپ ہوں
کیا بات کروں وہ بد زباں ہے

اب منت باغباں عبث ہے
پت جھڑ کے دن آ گئے خزاں ہے

گلزار نہیں مقام عشرت
بلبل پہ جفائے باغباں ہے

گل کو بھی ہی کچھ غم نہاں نے
غنچے کی چٹک نہیں فغاں ہے

گردوں نے ہی سب کو مار رکھا
جو زندہ بھی ہے وہ نیم جاں ہے

یہ کاہکشاں نہیں سروں پر
کھینچے ہوئے تیغ آسماں ہے

کیا قیس سے ملتفت ہو لیلیٰ
ننگا ہے وہ ننگ خانداں ہے

پروانے سے شمع کیا چھپے گی
میں بھی پوچھوں گا تو جہاں ہے

دیکھا اے بحرؔ تیرا دیوان
اک دفتر حال عاشقاں ہے