خمار شب میں ترا نام لب پہ آیا کیوں
نشے میں اور بھی تھے میں ہی لڑکھڑایا کیوں
میں اپنے شہر کی ہر رہ گزر سے پوچھتا ہوں
پڑا ہوا ہے یہیں وحشتوں کا سایا کیوں
کوئی تو درد ہے ایسا جو کھینچتا ہے اسے
مرے ہی دل کی طرف لوٹ کر وہ آیا کیوں
کسی نگاہ کا میں حسن انتخاب نہ تھا
تو زندگی نے مجھے ہی پھر آزمایا کیوں
کسی دیے سے گلا بھی کریں تو کیسے کریں
پرائے گھر کی منڈیروں پہ جگمگایا کیوں
مجھے سنبھال کے رکھنا تھا اے نگار وطن
گلی گلی میں لہو کی طرح بہایا کیوں
میں گر پڑا تھا کہیں بے بسی کے عالم میں
مجھے اٹھا کے کسی نے گلے لگایا کیوں
غزل
خمار شب میں ترا نام لب پہ آیا کیوں
فاضل جمیلی