کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے
شب رنگ ہوا جاؤں میں سورج کے کرم سے
ترکیب یہی ہے اسے پھولوں سے ڈھکا جائے
چہرہ کو بچانا بھی ہے پتھر کے صنم سے
اک جھیل سریکھی ہے غزل دشت ادب میں
جو دور تھی جو دور رہی دور ہے ہم سے
آخر یہ کھلا وو سبھی تاجر تھے گہر کے
جن کے بھی مراسم تھے مرے دیدۂ نم سے
کیوں کر وہ کسی میل کے پتھر پہ ٹھہر جائے
کیوں رند کی نسبت ہو ترے دیر و حرم سے
یہ میرے تخلص کا اثر مجھ پہ ہوا ہے
اب یاد نہیں اپنا مجھے نام قسم سے
غزل
کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے
مینک اوستھی