EN हिंदी
کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے | شیح شیری
khulti hi nahin aankh ujalon ke bharam se

غزل

کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے

مینک اوستھی

;

کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے
شب رنگ ہوا جاؤں میں سورج کے کرم سے

ترکیب یہی ہے اسے پھولوں سے ڈھکا جائے
چہرہ کو بچانا بھی ہے پتھر کے صنم سے

اک جھیل سریکھی ہے غزل دشت ادب میں
جو دور تھی جو دور رہی دور ہے ہم سے

آخر یہ کھلا وو سبھی تاجر تھے گہر کے
جن کے بھی مراسم تھے مرے دیدۂ نم سے

کیوں کر وہ کسی میل کے پتھر پہ ٹھہر جائے
کیوں رند کی نسبت ہو ترے دیر و حرم سے

یہ میرے تخلص کا اثر مجھ پہ ہوا ہے
اب یاد نہیں اپنا مجھے نام قسم سے