کھلتی ہے چاندنی جہاں وہ کوئی بام اور ہے
دل کو جہاں سکوں ملے وہ تو مقام اور ہے
کہتی ہے روح جسم سے شاید تجھے خبر نہیں
میرا مقام تو نہیں میرا مقام اور ہے
سہمی ہوئی یہ خامشی ہونٹوں کی تیرے کپکپی
کہتی ہے صاف نامہ بر کچھ تو پیام اور ہے
شکوۂ بے رخی پہ وہ کہنے لگے کہ دیکھیے
نظروں کی بات اور ہے دل کا سلام اور ہے
پیتے رہے ہیں عمر بھر لیکن وہی ہے تشنگی
جس کا نشہ ہے جاوداں وہ کوئی جام اور ہے
وقت گناہ دیر تک کہتا ہے مجھ سے دل مرا
کار حیات عشق میں تیرا تو کام اور ہے
ہر شے پہ اس جہان کی پردا ہے اک فریب کا
کہتے ہیں سب کنولؔ مجھے گو میرا نام اور ہے

غزل
کھلتی ہے چاندنی جہاں وہ کوئی بام اور ہے
ڈی ۔ راج کنول