EN हिंदी
کھلنے ہی لگے ان پر اسرار شباب آخر | شیح شیری
khulne hi lage un par asrar-e-shabab aaKHir

غزل

کھلنے ہی لگے ان پر اسرار شباب آخر

واصف دہلوی

;

کھلنے ہی لگے ان پر اسرار شباب آخر
آنے ہی لگا ہم سے اب ان کو حجاب آخر

تعمیل کتاب اول تاویل کتاب آخر
تدبیر و عمل اول تقریر و خطاب آخر

اس خاک کے پتلے کی کیا خوب کہانی ہے
مسجود ملک اول رسوا و خراب آخر

گو خود وہ نہیں کرتے بخشش میں حساب اول
دینا ہے مگر ہم کو اک روز حساب آخر

دیدار سے پہلے ہی کیا حال ہوا دل کا
کیا ہوگا جو الٹیں گے وہ رخ سے نقاب آخر

محروم نے رہ جانا کوتاہی ہمت سے
ہونے کو ہے اے واصفؔ یہ بزم شراب آخر