کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں
میں ہر چہرے میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں
تجھے میں کس طرح پہچان پاؤں
کہ اپنے آپ سے نا آشنا ہوں
جہاں انسان پتھر ہو چکے ہیں
میں اس بستی میں کیسے جی رہا ہوں
جہاں سے کل مجھے کاٹا گیا تھا
وہیں سے آج میں پھر اگ رہا ہوں
میں اس سنگین سناٹے میں قائمؔ
کسی طوفاں کی آہٹ سن رہا ہوں
غزل
کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں
قائم نقوی