EN हिंदी
کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں | شیح شیری
khuli khiDki se din bhar jhankta hun

غزل

کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں

قائم نقوی

;

کھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں
میں ہر چہرے میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں

تجھے میں کس طرح پہچان پاؤں
کہ اپنے آپ سے نا آشنا ہوں

جہاں انسان پتھر ہو چکے ہیں
میں اس بستی میں کیسے جی رہا ہوں

جہاں سے کل مجھے کاٹا گیا تھا
وہیں سے آج میں پھر اگ رہا ہوں

میں اس سنگین سناٹے میں قائمؔ
کسی طوفاں کی آہٹ سن رہا ہوں