کھلی آنکھوں سے سپنا دیکھنے میں
گنوا دی عمر رستہ دیکھنے میں
بہا کر لے گئی اک موج دریا
بہت تھے محو دریا دیکھنے میں
ہوا کوچہ بہ کوچہ رو رہی ہے
سجا ہے قریہ قریہ دیکھنے میں
جو برتیں تو کھلیں سب بھید اس کے
حسیں لگتی ہے دنیا دیکھنے میں
دریچوں سے یہ دل آویز منظر
برے لگتے ہیں تنہا دیکھنے میں
نکل آتا ہے کڑوا ذائقے میں
جو پھل ہوتا ہے میٹھا دیکھنے میں
حقیقت میں وہ ایسا تو نہیں ہے
نظر آتا ہے جیسا دیکھنے میں
عذاب گمرہی میں مبتلا ہیں
بھٹک جاتے ہیں رستہ دیکھنے میں
قضا اکثر نمازیں ہو گئی ہیں
نشان سمت قبلہ دیکھنے میں
ہم احرام ہوس پہنے ہوئے ہیں
لبادہ ہے یہ اجلا دیکھنے میں
وہیں اکثر شناور ڈوبتے ہیں
جو ہیں پایاب دریا دیکھنے میں
یہی ہے لغزش بینائی محسنؔ
کہ ہو مشغول دنیا دیکھنے میں
غزل
کھلی آنکھوں سے سپنا دیکھنے میں
محسن احسان