کھلی آنکھوں میں در آنے سے پہلے
نظر آؤ نظر آنے سے پہلے
نہیں تھا مجھ کو زعم پارسائی
کوئی الزام سر آنے سے پہلے
ہمیں در پیش تھی نقل مکانی
ترا حکم سفر آنے سے پہلے
گلے ملتی ہے مجھ سے بے گھری بھی
گلی میں روز گھر آنے سے پہلے
ہوا کرتے ہیں رستے بھی رکاوٹ
گزر جا رہ گزر آنے سے پہلے
نظر انداز کر دیتی تھی آنکھیں
مجھے تجھ سا نظر آنے سے پہلے
بہت آسان تھا کار ہنر بھی
مرے ہاتھوں ہنر آنے سے پہلے
کبھی تو بار ور ہو جائے احمدؔ
دعا باب اثر آنے سے پہلے
غزل
کھلی آنکھوں میں در آنے سے پہلے
آفتاب احمد