کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ
کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے
کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر آہستہ آہستہ
بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے
کہ تھکتا جا رہا ہے ہم سفر آہستہ آہستہ
خلش کے ساتھ اس دل سے نہ میری جاں نکل جائے
کھنچے تیر شناسائی مگر آہستہ آہستہ
ہوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا
سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ
غزل
کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
پروین شاکر