کھلا ہے زیست کا اک خوش نما ورق پھر سے
ہوائے شوق نے کی ہے یہاں پہ دق پھر سے
پکارتا ہے مجھے کون میرے ماضی سے
کہ آج رخ پہ مرے چھا گئی شفق پھر سے
خفا خفا سے ہیں آخر جناب ناصح کیوں
کسی نے کر دیا کیا آج ذکر حق پھر سے
کسی سے روٹھ گئے یا کسی کا دل توڑا
جبیں پہ آ گیا کیوں آپ کی عرق پھر سے
میان دل کوئی لیتی ہے ٹیس انگڑائی
وہی ہے رنج وہی غم وہی قلق پھر سے
نہ نکلو چاندنی راتوں میں کتنی بار کہا
ہوا ہے چاند کے چہرہ کا رنگ فق پھر سے
بس ایک تجربہ کافی ہے زندگی کے لئے
پڑھا نہ جائے گا ہم سے وہی سبق پھر سے
یہی نظام زمانہ یہی تغیر ہے
جو سہل ہے وہی ہو جائے گا ادق پھر سے
کہیں قریب ہی بادل برستے ہیں آلوکؔ
ہوائیں لائی ہیں خنکی کی کچھ رمق پھر سے
غزل
کھلا ہے زیست کا اک خوش نما ورق پھر سے
آلوک یادو