کھلا ہے جلوۂ پنہاں سے از بس چاک وحشت کا
میں ڈرتا ہوں کہیں پردہ نہ پھٹ جائے حقیقت کا
کہاں لے جائے گا یا رب سمند تند وحشت کا
کہ پیچھے رہ گیا کوسوں دوراہا نار و جنت کا
غبار رنگ پراں ہے پھریرا تیری رایت کا
شکست قلب عاشق غلغلہ ہے تیری نصرت کا
کیا ہے قصد کس کے کنگر ایوان رفعت کا
کہ تھاما ہے ترے نالے نے پایہ عرش ہمت کا
جھکا دی قدسیوں نے بے تکلف گردن طاعت
زہے رتبہ کف خاک در والائے دولت کا
کھلے کس طرح پردہ پردۂ گوش تحیر پر
کہ بے صوت و صدا ہے پردہ ساز بزم وحدت کا
صنم طاق حرم سے دفعتاً نیچے اتر آئے
ادب تھا بس کہ واجب دوست کے قاصد کے طلعت کا
حجاب تن کساد رونق کالائے یوسف ہے
تردد کیا ہے زنداں خانۂ ہجراں سے ہجرت کا
سلاطیں کو نہیں پاتا مزاج ان کے فقیروں کا
کہ عنقائے فلک پرواز ہے قاف قناعت کا
لب اصنام ہیں قند سخن سے سر بہ مہر اب تک
خموشی سے مزہ پوچھے کوئی تیری فصاحت کا
مزے ملتے ہیں کیا کیا عشق کے لذت شناسوں کو
ہمیں دامان زخم دل عوض ہے خوان نعمت کا
ترے حیرت کدے میں فرش ہے آئینہ کیا او بت
کہ خاصان در دولت کو ہی کھٹکا ہے ذلت کا
نگہ بے حس خط ساغر کی صورت ہے کہ ساقی نے
دیا ہے مردم چشم جہاں کو جام حیرت کا
تلاش جلوۂ معنی میں ٹکرایا کئے سجدے
نہ ٹوٹا دست خشک زہد سے بت خانہ صورت کا
قیامت برہمی ڈالی تو ہجراں کی گھڑی گزری
زمیں ہے گرد شیشہ آسماں شیشہ ہے ساعت کا
بتوں پر لات ماری مہر و مہ سے پھیر لیں آنکھیں
بیاںؔ اللہ رے غمزہ مرے حسن عقیدت کا
غزل
کھلا ہے جلوۂ پنہاں سے از بس چاک وحشت کا
بیان میرٹھی